تحریر: شازیہ بتول
حوزہ نیوز ایجنسی|
مقدمہ
۱۳ رجب المرجب امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کا یومِ ولادت ہے، جسے دنیا بھر میں یومِ پدر کے عنوان سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حضرت علیؑ صرف اپنی اولاد ہی کے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک مثالی باپ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپؑ کی بہترین تربیت کا نتیجہ امام حسنؑ، امام حسینؑ، حضرت زینبؑ، حضرت ام کلثومؑ اور حضرت عباسؑ جیسی عظیم اور تاریخ ساز شخصیات کی صورت میں ظاہر ہوا۔
حضرت علیؑ، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی بیٹی کے لیے بہترین شوہر اور اپنی اولاد کے لیے نہایت شفیق، ذمہ دار اور مثالی باپ تھے۔ آپؑ نے ایسی اولاد کی تربیت فرمائی جو ہر دور کے مسلمانوں بلکہ پوری انسانیت کے لیے عملی نمونہ اور رول ماڈل ہیں۔ آپؑ نہ صرف اپنی اولاد بلکہ یتیموں اور محروموں کے لیے بھی ایک مہربان باپ کی مانند تھے؛ راتوں کو خاموشی سے یتیموں کے گھروں میں کھانا پہنچانا آپؑ کی سیرت کا روشن باب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت علیؑ کی ولادت کے دن کو یومِ پدر قرار دینا نہایت بامعنی اور حکمت پر مبنی انتخاب ہے۔
آج کے معاشرے میں باپ کا مقام
آج کے معاشرے میں ماں کی محبت، قربانی اور شفقت پر تو بہت گفتگو کی جاتی ہے، مگر باپ کی خاموش قربانیوں، جدوجہد اور بے لوث محبت کو وہ توجہ نہیں دی جاتی جس کی وہ مستحق ہیں۔ حالانکہ باپ ہی وہ ہستی ہے جو زندگی کے نشیب و فراز میں سہارا بنتا ہے، درست سمت دکھاتا ہے اور اولاد کو عملی زندگی کے لیے تیار کرتا ہے، لہٰذا یومِ پدر اس بات کی یاد دہانی ہے کہ ہم اپنے والد، دادا اور بزرگوں کا شکریہ ادا کریں جنہوں نے ہماری پرورش، رہنمائی اور کردار سازی میں بنیادی کردار ادا کیا۔
باپ کے لغوی و اصطلاحی معنی
راغب اصفہانی مفردات القرآن میں لفظ “اَب” کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ہر وہ سبب جو کسی چیز کے وجود، اس کی بہتری یا اس کے ظہور کا باعث بنے، اب کہلاتا ہے۔
اس اعتبار سے باپ صرف وہ نہیں جو وجود کا سبب بنے، بلکہ وہ بھی ہے جو تربیت، نگہداشت، اصلاح اور قیام کا ذریعہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ باپ کو اب کہا جاتا ہے، کیونکہ وہ محض پیدائش تک محدود نہیں بلکہ اولاد کی مکمل تربیت اور اصلاح کی ذمہ داری بھی نبھاتا ہے۔
امت کے حقیقی باپ
انہی معنوں میں رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ اور حضرت علیؑ کو امت کے حقیقی باپ قرار دیا گیا ہے۔ رسول اکرم کا ارشاد ہے:اَنَا وَعَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ أَبَوَا هٰذِهِ الْأُمَّةِ…(بحار الانوار، ج36، ص96)
"میں اور علی اس امت کے دوباپ ہیں۔ ہمارا حق اس امت پر ان کے نسبی والدین سے بھی زیادہ ہے، کیونکہ اگر وہ ہماری اطاعت کریں تو ہم انہیں جہنم سے نجات دے کر جنت کی طرف لے جاتے ہیں اور غلامی سے نکال کر آزاد انسانوں کی صف میں کھڑا کر دیتے ہیں۔"
متعدد روایات سے یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ کائنات کا وجود، اس کا نظام اور مخلوقات کی ہدایت رسولِ خدا، حضرت علیؑ اور ائمۂ اہلِ بیتؑ کے وجودِ مبارک سے وابستہ ہے۔ احادیث جیسے «لولاك لما خلقت الافلاك» اور «لولا الحجة لساخت الأرض» اسی حقیقت کی گواہ ہیں۔
قرآنِ مجید میں بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے:اَلنَّبِيُّ أَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ۔(سورۂ احزاب: 6)"نبی مؤمنوں پر ان کی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھتے ہیں اور ان کی ازواج مومنوں کی مائیں ہیں۔"
شخصیت امیرالمؤمنینؑ رہبرِ معظم کی نظر میں
امیرالمؤمنین حضرت علیؑ صرف شیعوں یا مسلمانوں ہی کے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک الٰہی تحفہ ہیں۔ آپؑ کی عظمت کے سامنے ہر صاحبِ بصیرت سرِ تعظیم خم کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپؑ کے مدّاحوں میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ دیگر ادیان کے پیروکار بھی شامل ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ آپؑ کی عظمت کو چھپانے کی بھرپور کوششیں کی گئیں، مگر سورج کی روشنی کو کب چھپایا جا سکا ہے؟ حضرت علیؑ کی حیاتِ طیبہ ایک گہرے سمندر کی مانند ہے، جس کی وسعت اور گہرائی کا ادراک وہی کر سکتا ہے جو اس میں غوطہ زن ہو۔ ہمیں آپؑ کی ذات میں شجاعت، عبادت، عدل، سخاوت، ایثار، مظلوم نوازی، ظلم کے خلاف بے باکی، اور انسانی نفسیات کی گہری سمجھ جیسے بے شمار اوصاف نظر آتے ہیں۔(Khamenei.ir)
باپ کا مقام احادیث کی روشنی میں
اسلام نے جہاں ماں کو عظیم مقام عطا کیا ہے، وہیں باپ کے حقوق کو بھی نہایت اہمیت دی ہے۔
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کا فرمان ہے: رضا الله فی رضا الوالد وسخط الله فی سخط الوالد۔
اسی طرح فرمایا: "اپنے والد کے ساتھ نیکی کرو تاکہ تمہاری اولاد تمہارے ساتھ نیکی کرے۔"(کنز العمال) یہ روایات باپ کے مقام و مرتبے اور اس کے احترام کی اہمیت کو واضح کرتی ہیں۔
بہترین باپ کی خصوصیات
شہید مطہری کے مطابق: تربیت ایک فطری عمل ہے، جس کا مقصد انسان کی پوشیدہ صلاحیتوں کو نکھارنا ہے۔ ایک بہترین باپ وہ ہے جو صبر و حکمت کے ساتھ اولاد کی رہنمائی کرے، تشدد اور خوف کے بجائے محبت اور حکمت کو بنیاد بنائے، بچوں کی فطری صلاحیتوں کو پہچان کر انہیں درست سمت دے اور ان کی ذہنی کیفیت اور نفسیاتی باریکیوں کو سمجھے۔
حضرت علیؑ کا فرمان ہے: "دل بھی جسم کی طرح تھک جاتے ہیں، لہٰذا انہیں آرام دو۔"(نہج البلاغہ، حکمت 188)
امام علیؑ ایک مثالی باپ
حضرت علیؑ کی ذاتِ اقدس ایک مثالی باپ کی کامل تصویر ہے۔ آپؑ کے زیرِ سایہ ایسی اولاد پروان چڑھی جنہوں نے دینِ اسلام کی بقا میں بنیادی کردار ادا کیا۔ نہج البلاغہ میں امام حسنؑ کے نام آپؑ کا خط والدانہ شفقت، حکمت اور بصیرت کا بے مثال نمونہ ہے۔اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا:اَنَا وَعَلِيٌّ أَبَوَا هٰذِهِ الْأُمَّةِ. میں اور علی اس امت کے باپ ہیں۔
نتیجہ
باپ اولاد کی زندگی میں وہ بنیادی کردار ادا کرتا ہے جو اس کی دنیا و آخرت کی کامیابی کی ضمانت بنتا ہے۔ حضرت علیؑ کی سیرت ایک مثالی باپ کی کامل مثال ہے، جس پر عمل کر کے ہر باپ اپنی اولاد کو صالح، باکردار اور کامیاب انسان بنا سکتا ہے۔
یومِ پدر اس امر کا بہترین موقع ہے کہ اولاد اپنے والد کی قربانیوں اور خدمات کا اعتراف کرے، چاہے وہ محبت بھرے الفاظ ہوں یا خلوص پر مبنی رویّے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت علیؑ کی سیرت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے والدین کو دنیا و آخرت میں سرخرو فرمائے۔
حوالہ جات
قرآن
بحار الانوار، ج 36، ص 96
w.w.w,islamtimes.com اسلام ٹائمز
سورۂ احزاب، آیت 6
KHAMENEI.IR
سنن ترمذی، کتاب البر الصلہ، باب ماجاء من الفضل فی رضا الوالدین، 4: 274,رقم1899
کنز العمال، ج 16، ص 466
علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج74، ص45
علامہ مجلسی،بحار الانوار،ج74،ص64
کلینی،اصول کافی،ج2،ص349
نہج البلاغہ،حکمت188
ابن صباح، الفصول المہمہ،ج1،ص571
علامہ مجلسی،بحار الانوار ،ج35،36،ص272









آپ کا تبصرہ